Saturday, February 5, 2011

یوم یکجہتی کشمیر۔۔۔! طیبہ ضیاء

 Courtesy Nawai Waqt
5th Februaury 2011
پاکستان میںہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جا تا ہے۔ عام تعطیل ہوتی ہے۔کشمیریوں کے ساتھ اظہار محبت کیا جاتا ہے۔ اس طرح مسئلہ کشمیر زندہ رہتا ہے۔ تاریخ تازہ ہوتی رہتی ہے۔۔۔ مگر اس روز پاکستان کی اکثریت سو کر گزارتی ہے ، پاکستان میں عام تعطیل کا مطلب سونا اور کھانا سمجھا جاتا ہے! ۔۔۔
مقبوضہ کشمیرکے ایک ٹاﺅن ”سوپور“ میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں دہشت گردی کے مزید دو المناک واقعات پیش آئے۔ دو جواں سالہ بہنوں ”عارفہ اور اختر“ کو سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ لڑکیوں کو بندوق کی نوک پر ان کے گھر سے اغوا کیا گیا اور دور لے جا کر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ اس سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے ہی ایک قصبے میں دو لڑکیوں”آسیہ اور نیلوفر“کی عصمت ریزی کے بعد انہیں قتل کر دیا گیا۔

جموں و کشمیر میں پیش آنے والے صرف ان دو حالیہ واقعات سے ہماری مظلوم کشمیری بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو بھارت سرکارکی دہشت گردی کا کھلم کھلا ثبوت ہیں۔ اس مظلوم خطے میں آج تک بے شمار لوگوں کی دنیا اُجڑ چکی ہے ان میں مزید دو گھروں کا اضافہ ہو گیا ہے حالانکہ بھارتی فورسز کی جانب سے بیان جاری ہوا تھا کہ 2011ءکے دوران جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو گی اور یہ سال امن و آشتی کا سال ہو گا۔ بھارتی سرکار اور اس کے دوست دیکھ رہے ہیں کہ 63 سالوں سے جاری آزادی کشمیر کی جدوجہد میں کمی واقع ہونے کی بجائے شدت آتی جا رہی ہے۔کسی قوم کے جہد مسلسل کو جانچنے کے لئے63 برس کا عرصہ کافی ہوتا ہے مگر چشموں، پہاڑوں، دریاﺅں، وادیوں، باغات سے دستبردار ہونا بھارت کی شکست ہے، نقصان ہے، پسپائی ہے جبکہ اس طویل جدوجہد کے دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہو ئے، ہزاروں معذور ہوئے، ہزاروں جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ، ہزاروں سرحد پر مارے گئے، برفوں تلے دب گئے، اغوا کرکے غائب کر دئیے گئے، لا تعداد خواتین آبروریزی کا نشانہ بنیں مگر نہ جدوجہد تھم رہی ہے اور نہ ہی ظلم اپنا ہاتھ روک رہاہے۔ مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی چار نسلیں نگل چکی ہے۔ معاشی و تعلیمی اعتبار سے بھی کشمیری قوم محرومی کا شکار ہے۔ قلم دوات کی بجائے ہاتھوں میں پتھر اٹھائے پھر رہے ہیں۔ غربت ،بیروزگاری ، ظلم، بے انصافی کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں مگر اقوام متحدہ نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے اور آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے جبکہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر فلسطین کے بعد دوسرا بڑا سیاسی مسئلہ ہے۔ اس حساس مسئلہ پر پاکستان دو جنگیں لڑ چکا ہے جس کی وجہ سے پاکستان معاشی ، سیاسی و جغرافیائی اعتبار سے کمزور ہو چکا ہے۔

اگرچہ قیام پاکستان کے بعد سے آزادی جموں و کشمیر کی جدوجہد کو تریسٹھ برس ہو چکے ہیں مگر آزادی حق کی یہ تحریک بہت پرانی ہے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے جب کشمیر کو انگریزوں سے خرید کر موجودہ ریاست جموں و کشمیر کی تشکیل کی تو کشمیریوں نے اپنے حقوق کی آزادی کی ”کشمیر جمہوریہ“ تحریک چلائی۔1931 میں کشمیری عوام نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں،آزادی کے لئے قربانیاں دیں۔ اس وقت پاکستان کا وجود نہ تھا۔ پاکستان کی قرارداد 1940ءمیں منظور ہوئی تو آزادی جموں وکشمیر کی تحریک قیام پاکستان کے بعد ایک سیاسی مسئلہ بن کر ابھری۔ کشمیریوں میں یہ احساس بہت پہلے سے موجود تھا کہ وہ ایک اس خطے میں ایک ریاست کے طور پر موجود ہیں۔ ان کی اپنی ایک شناخت ہے۔ 1947 میں جب پاکستان و بھارت کو آزادی حاصل ہوئی تو کشمیریوں کو بھی آزادی کی امید دکھائی دی مگر انگریز اور ہندو کی ملی بھگت سے جموں وکشمیر کو ”متنازعہ“ بنا دیا گیا اور بھارت یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا۔ مسئلہ کشمیر کو دونوں ملکوں کی حکومتوں نے استعمال کیا۔1949 میں پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ نے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی کہ اس مسئلے کو مسئلہ جموں و کشمیر کی بجائے پاکستان و ہندوستان کے مابین تنازعہ کے طور پر سمجھا جائے۔ اس ترمیم کے بعد بین الاقوامی برادری نے جموں و کشمیر کو پاک بھارت کا متنازعہ مسئلہ قرار تو دے دیا مگر ان تریسٹھ برسوں میں پاکستان کو چار ایسے ملک نہ مل سکے جو بھارت کے خلاف کشمیر کے سلسلے میں اس قرارداد کی تائید کر سکتے۔ اقوام متحدہ کی قرار داد کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان لائن قرار دی گئی تھی۔ دونوں ملکوں کی جانب سے کئی ڈائیلاگ ہوئے،کئی عہد و پیمان ہوئے مگر مسئلہ کشمیر حل کی طرف جانے کی بجائے مزید الجھتا چلا گیا۔ مسلمان ممالک بھی آزادی کشمیر کے لئے بھارت پر دباﺅ ڈالتے ہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ میں آواز اٹھاتے ہیں جبکہ بھارت کے ساتھ ان کی کھربوں ڈالروں کی تجارت ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا ہے پھر بھی اس کے حکمران اس مسئلہ کے بارے میں سنجیدگی کے اس مقام تک نہیں پہنچ پائے جہاں جموں وکشمیر کی آزادی و خود مختاری ممکن ہو سکے۔ ؟

پاکستان میںہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جا تا ہے۔ عام تعطیل ہوتی ہے۔کشمیریوں کے ساتھ اظہار محبت کیا جاتا ہے۔ اس طرح مسئلہ کشمیر زندہ رہتا ہے۔ تاریخ تازہ ہوتی رہتی ہے۔۔۔ مگر اس روز پاکستان کی اکثریت سو کر گزارتی ہے ، پاکستان میں عام تعطیل کا مطلب سونا اور کھانا سمجھا جاتا ہے! ۔۔۔







All photos in this post do not belong to original post.

1 comment:

Post a Comment